محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! اس تحریر میں ’’دعا کی طاقت‘‘ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کررہی ہوں۔ یہ ان بہن بھائیوں کیلئے ہے جو جمعرات کے روز تسبیح خانہ میں درس ختم ہونے کے ساتھ ہی جانا شروع کردیتے ہیں میں نے جانےوالی بہنوں کو بہت کہا دعا تو مانگ لیں‘ جواب تھا: نہیں سیڑھیوں پر رش ہوجائے گا ہم ذرا آرام سے نکل جائیں گی‘‘۔ اسی طرح مسجد میں بھی جب امام صاحب سلام پھیرتے ہیں تو لوگ اسی وقت اٹھ کر چلے جاتے ہیں اور اجتماعی دعا میں شامل نہیں ہوتے۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اللہ رب العزت اپنے تمام بندوں کی خواہ وہ نیک ہوں یا گنہگار عالم ہوں یا جاہل سب کی دعاؤں کو سنتا ہے اور انہیں قبول کرتا ہے‘ اللہ مانگنے والوں کو محروم نہیں کرتا۔
میری زندگی میں کئی بار ایسے مشاہدات اور تجربات ہوئے کہ میں نےنوٹ کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول کرنے کے حالات پیدا کردیتا ہے۔ میری زندگی میں کئی بار ایسے مشاہدات تجربات ہوئے کہ میں نے نوٹ کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول کرنے کے حالات پیدا کردیتا ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ دعا قبول ہوجاتی ہے۔ ایک دن موسم بہت خراب تھا‘ میرےشوہرصاحب نے کہا کہ گاڑی آج تم اپنے پاس رکھ لو‘ مجھے آج آفس میں زیادہ کام ہے تم اپنے حساب سے آفس سے گھر چلی جانا‘ میں خوش ہوگئی کہ چلو آج امی کی طرف چکر لگاؤں گی‘ شوہر صاحب اپنے دفتر اتر گئے میں اپنے دفتر آگئی۔ میرا دھیان اچانک اپنی بہن کی طرف چلا گیا کہ کافی دن ہوگئےاس نے کوئی فون نہیں کیا‘ میں اس کےبارے میں سوچتی رہی‘ پھر کام میں لگ گئی‘ میں نے سوچا کہ فارغ ہوکر خود ہی بہن کو فون کرلوں گی‘ کچھ دیر بعد اس کا فون آگیا‘ میں نے خیریت دریافت کی توبتایا کہ بیٹے کو نمونیا ہوگیا ہے‘ میاں اسلام آباد گئے ہیں‘ میں اکیلی ہوں‘ بہت پریشان ہوں‘ بیٹے کو طبی سہولیات کیسےمیسر ہو کیونکہ باہر بارش ہورہی ہے‘ بیٹا رو رہا ہے‘ باہر رکشہ کیسے لانے کیلئے جاؤں؟ پھر میں نے اسے کہا کہ وہ فکر نہ کرے میں ابھی آرہی ہوں تم تیار ہوجاؤ‘ فون بند ہوا تو میں نے سوچا واہ میرے رب تو کتنا مہربان اور شفقت کرنے والا ہے تو کیسے کیسے اسباب بناتا ہے آج صبح تو نے پہلے میرے دل میں یہ خیال ڈالا اور ذہنی طور پر تیار کیا کہ میں اس کی خیریت کیلئے فون کروں۔ ادھر میری بہن کے بقول کہ وہ دعا کررہی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کے کام کا سبب بنادے‘بلاشبہ اللہ نے سچ فرمایا: تمہارے رب نے حکم دیا ہے مجھے پکارو‘ میں تمہاری دعاؤں کو قبول کرنے والا ہوں‘‘۔
ایک دن میرے شوہر صاحب کہیں جارہے تھے‘ رش میں پھنس گئے‘ پٹرول ختم ہوگیا‘ انہوں نے مجھے فون کیا میں ایسے موڑ پر ہوں جہاں اندھیرا ہے‘ دور دور تک کوئی پٹرول پمپ نظر نہیں آرہا‘ میں پریشان ہوگئی میں نے حوصلہ دیا اور کہا حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے جو سورۂ کوثر کا ورد دیا ہے آپ بھی پڑھو‘ میں بھی پڑھتی ہوں‘ اللہ جلدی مشکل سے نکال دے گا‘ پھر ہم نے اللہ سے لمبی لمبی دعائیں اور سورۂ کوثر پڑھنا شروع کردی‘ شوہر صاحب کہتے ہیں ابھی صرف دس منٹ ہوئے تھے کہ اچانک ایک لڑکا موٹرسائیکل پر آگیا مجھے کہتا ہے کہ آپ گاڑی میں بیٹھو میں موٹرسائیکل پر بیٹھ کر پاؤں لگا کر دھکا لگاتا ہوں‘ اگلے موڑ پر پٹرول پمپ ہے میں گاڑی میں تو بیٹھ گیا‘ لیکن یہ سوچتا رہا یہ موٹرسائیکل والا مجھے آتا نظر نہ آیا اور گاڑی ایسے چل رہی تھی جیسے چار آدمی دھکا لگارہے ہوں‘ پٹرول پمپ پر پہنچ کر میاں صاحب کہتے ہیں کہ میں نیچے اترا کہ جوان کا شکریہ ادا کرسکوں مگر وہ اتنی دیر میں جاچکا تھا۔ یہ دعا میں اللہ کو پکارنے کا انعام تھا‘ دعا مانگنے اور سورۂ کوثر پڑھنے سے مسئلہ حل ہوگیا۔ ایک دن میں درس پر آنے لگی تو دیکھا میرے بیٹے کو 102 بخار تھا‘ میں پریشان ہوگئی‘ اس کے پاس بیٹھ گئی‘ میں نے اسے سمجھایا کہ انٹرنیٹ پر درس سن کر اپنے لیے دعا مانگنا‘ میں بھی مانگوں گی‘ خیر درس میں آگئی اس دن درس میں وضو کے تین گھونٹ پانی کا عمل(یعنی وضو مکمل کرنے کے بعد تین گھونٹ پانی پینا ہے۔ ایک گھونٹ پر اللہ معافی، دوسرے پر اللہ کافی، تیسرے پر اللہ شافی پڑھنا ہے۔) اور اذان اور افحسبتم کا عمل بتایا گیا‘ میرے بیٹے نے ہر پانچ، پانچ منٹ بعد وضو کرکے آخری تین گھونٹ پیے‘ اذان والا عمل کیا‘ ادھر میں نے درس میں رو رو کر اللہ سے اپنے بیٹے کی صحت مانگی جب میں گھر گئی تو میرا بیٹا دروازہ کھول رہا تھا‘ یہ تھا اللہ سے دعا مانگنے اور اوپر بتایا ہوا عمل اور رونے سے اللہ نے پریشانی دور کی۔ دعائیں آنسوؤں میں گوندھی ہوئی ہونی چاہئیں کیونکہ جتنی میرے مولا کی بلند شان ہے اتنی ہی بڑی بڑی ہماری کوتاہیاں ہیں‘ گناہ ہیں لغرشیں ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں